مضمون کی قسمیں

                         مضامین عموما تین طرح کے ہوتےہیں.........
  (1)    علمی مضمون
  (2)      ادبی مضمون
  (3)      صحافتی مضمون  
            
           علمی مضمون:-   کسی ایسے موضوع پرجب  اظہار خیال کیا جایے جس سے متعلق معلومات اور مواد کی فراہمی ضروری ہے اور انداز سنجیدہ ہو تو اسے علمی مضمون کہتے ہیں ـ
              علمی مضامین کی بنیاد علم اور افکار پر ہوتی ہےـ اس میں مضمون نگار متوازن انداز میں موضوع کےمثبت اور منفی تمام  پہلووں کا احاطہ کرتا ہے اور وہ کچھ اسے نتائج برآمد کرتا ہے جن سے پڑھنے والا اتفاق کر سکےـ مثلا  کسی  مشہورشخصیت کی سوانح حیات   سے متعلق کوئی مضمون یا کسی صنف   سخن کی امتیازی خصوصیات سے متعلق کوئی مضمون یا کسی اخلاق موضوع سے متعلق مضمون نگار کی رایے سے مشتمل کوئی مضمون ان سب کو علمی مضامین کہا جایےگاـ
               علمی مضمون کی مثال  میں قاضی عبدالودود  کے مضمون  "غالب کا ایک فرضی استاد"کو پیش کیا جا سکتاہےـ علمی موضوعات کو محدود اور متعین نہیں کیا جا سکتا کوئی بھی ایسا موضوع جو فکر انگیز ہو اور مصنف کے نقطئہ نظر کو دلائل کی روشنی میں پیش کرتا ہو علمی مضمون کے دائرےمیں آتا  ہےـ
              کسی علمی موضوع پر اظہارخیال کرنےکے لیے یہ ضروری ہےکہا اس سے متعلق جو تحریریں ہیں اس کا مطالعہ کیا جایے اور مضمون نگار کی نگاہ میں اگر اختلاف کی کوئی گنجائش یا اسے کوئی نئی معلومات  حاصل ہوگئی جب  ہی وہ اس موضوع پر قلم اٹھایےگاـ  اختلاف کی صورت میں مضمون نگار کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر کو مدلل انداز میں پیش کرےـ پہلے سے کہی ہوئی باتوں کو دہرانا  یا ان کا خلاصہ پیش کر دینا علمی مضمون کی وقعت کو کم کر دیتا  ہےـ اسی طرح بنیادی اور ٹھوس معلومات کے بغیر کسی موضوع پر قلم اٹھانا رسوائی کا سبب بن سکتا ہےـ
           علمی مضامین کی  عمدہ مثالیں علامہ شبلی نعمانی ، خواجہ الطاف حسین حالی، مولوی عبدالحق، محمود شیرانی، قاضی عبدالودود، مولانا امتیاز خان عرشیاور پروفیسر حنیف نقوی کے مضامین و مقالات میں ملتی ہےـ
                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
        
           ادبی مضمون:-   جب کسی ادبی موضوع  پر اظہار کیا جایے تو اسے ادبی مضمون کا عنوان دیا جاتا ہے ـ عام طور پرادبی مضامین شاعری اور ادیبوں سے متعلق لکھے جاتے ہیں ـ مثلا اگر کوئی شخص مرزا  غالب ، آتش اور داغ  دہلوی جیسے شاعری کی غزل گوئی کی خصوصیات بیان کیے جائیں تو ایسے مضامین ادبی مضمون کا اطلاق ہوگاـ  اسی طرح اگر نظیر اکبر آبادی، اکبر الہ آبادی ، علامہ اقبال یا اختر الایمان کی نظموں کے بارے میں کوئی مضمون تحریر کیا جایے تو بھی ادبی مضمون کا عنوان دیا جایےگاـ
         علمی مضمون کی طرح ادبی موضوعات پر اظہار خیال کے لیے ضروری ہے کہ اصل موضوع سے متعلق ضروری معلومات فراہم کر لی  جایےـ اس کے بعد قلم اٹھایا جایےـ
        اد بی مضامین کی دوسری قسم وہ ہو  سکتی ہے جسے ہم طنز و مزاح یا انشائیہ کا نام دے سکتے ہیں -ان مضامین میں اصل اہمیت  ادبی پیرایے اظہار کی ہوتی ہے یعنی مضمون نگار کے لیے یہ ضروری ہوتا ہےکہ وہ اپنے دلکش انداز بیان کے ذریعے پڑھنے والے کو اپنی  طرف متوجہ کرےـ اسی  طرح کے مضامین میں طنز و مزاحسے بھی کام لیا  جا سکتا ہےاور شعری و ادبی  ذوق کی مدد سے عمدہ جملے اور  ترکیبیں بھی استعمال  کی  جا سکتی ہیں ـ پطرس بخاری ، ابن انشا، رشید احمد صدیقی ،فرحت اللہ بیگ اور مشتاق احمد یوسفی کے  مضامین اسی دائرے میں آتے ہیں ـ 
          اس طرح کے مضامین لکھنے کے لیے ادبی ذوق کی ضرورت ہوتی   ہےـ  جب تک کلاسیکی نثر و نظم کا با قاعدہ  مطالعہ نا کیا جایےایسے مضامین نہیں لکھے جا سکتےـ
                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

           صحافتی مضمون :-  جس کا تعلق وقتی حالات یا کسی تازہ سیاسی یا معاشرے کے مسئلے سے ہو مثال کے طور پر ملک میں کسانوں کے خودکشی کا مسئلہ آج کل ایک سیاسی موضوع ہےاور اس کی سماجی اور اقتصادی اہمیت ہےکسان حکومت سے زراعتی مقاصد کے لیے قرض لیتا ہے عام طور پر یہ قرض سود کے ساتھ لوٹانا ہوتا ہے- کسان کی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے قرض کی رقم اس سے خرچ ہو تا ہے اور جس طرح کا نفع اس کے ذہن میں تھا وہ بھی اسے حاصل نہیں ہو تا دوسری جانب قرض کی ادائیگی کا وقت آ جاتاہے-اب ایک طرف اس کی روز مرہ کی ضروریات ہوتی ہیں جنہیں وہ پورا نہیں کر پاتا اور دوسری طرف سرکاری اہلکار ہوتے ہیں جو قرض کی واپسی کا تقاضا کرتے ہیں ان حالات میں میں مجبور ہو کر کسان خود کشی کر بیٹھتا ہے-یہ اوراس طرح کے موضوعات جب کسی صحافی کے سامنے آتے ہیں تو وہ اس کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھ کر اظہار خیال کرتا ہے کہ اس سلسلے میں کسی حد تک حکومت ذمہ دار ہے اور کسی تک خود کسان ذمہ دار ہے- اسی ناگہانی سیلاب کاآجانا یا خشک سالی کی صورت کا پیدا ہو جانا بھی کسان کے خود کشی کا سبب بنتا ہے- ان سوالات پر غور کرکے صحافی جو کچھ بھی لکھتا ہے اس پر صحافی مضمون کا اطلاق کیا جاتا ہے-
           اس تفصیلی گفتگو سے یہ بات معلوم ہوگئ کہ صحافتی مضمون لکھنے والے کے لیے حالت حاضر ہ سے واقف ہونا ضروری ہے-اسی طرح صحافی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جس موضوع پر اظہار خیال کرنا چاہتا ہے اس سے متعلق اعداد وشمار فراہم کرے ایسا نہ ہو وہ موضوع سے متعلق  ضروری جزئیات کے علم رکھے بغیر اپنے مضمون میں کوئی ایسی بات لکھ جایے جو واقعی اور غیر تحقیقی ہو- 
           اچھا صحافی سیاسیات، سماجیات، معاشیات اور دوسرے موضوعات سے متعلق معلومات کی بنیاد پر اس طرح اظہار خیال کرتاہے کہ اس سے پڑھنے والے کو رہنمائی بھی حاصل ہوتا ہے اور انہیں غور وفکر کا موقع بھی ملتا ہے- اس کے علاوہ وہ شعر وادب کا مطالعہ بھی کرتا ہے تاکہ اس کے انداز بیان میں دلکشی پیدا ہو جایے اور پڑھنے والوں کو خشکی کا احساس نہ ہو- صحافی اپنی مضامین کے ذریعے سیاست دانوں کو تو متاثر کرتا ہی ہےاس کے علاوہ وہ ماہرین سماجیات اور ماہرین معاشیات بھی اس کے اثر قبول کرتے ہیں-شعر و ادب کی روایت سے واقفیت کی وجہ سے اس کی زبان اغلاط سے پاک ہوتی ہےاور اس کا اسلوب بھی شگفتہ اور عام فہم ہوتی ہے-
                             
                               .............................................
   
     

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

مضمون نگاری کی تعریف اور اس کے اصول

تخلیقی نثر