تخلیقی نثر
تخلیقی نثر سے مراد ہے ایسی نثر جس میں زبان کا تخلیقی استعمال ہوا ہو- جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نثر کی دو بڑی قسمیں ہیں ایک علمی نثر اور دوسری تخلیقی نثر - علمی نثر میں منتخب الفاظ میں اپنے خیالات کا غیر جزباتی انداز میں اظہار کیا جاتا ہے - علمی نثر میں تشبیہ ؛استعارے سے کام نہیں لیا جاتا- بات اس طرح کہی جاتی ہے کہ بغیر کسی ابہام کےبات قاری تک پہنچ جائے- گویا علمی نثر میں وضاحت اور قطعیت ہوتی ہے - اس کے برعکس تخلیقی نثر میں رمزوکنایےسےبھی کام لیا جاتا ہے - اور تشبیہ واستعارے کی مدد سےزبان کو خوبصورت بھی بنایا جاتا ہے - گویا تخلیقی نثر میں ادبیت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے -
تخلیقی نثر میں زبان و بیان کی خوبصورتی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے - خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے نثر نگارحسین الفاظ اور تراکیب کا استعمال کرتاہے-جس بیان کے لیے بات اشارے ؛ کناے میں بھی کہی جاتی ہے - تخلیقی نثر میں تعقل کےبجایے جزبات پر زور دیا جاتا ہے اور ایسے ہی الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے - جن سے تاثیر میں شدت پیدا ہوتی ہے - مثلاً بہت دنوں بعد کسی آدمی سے ملاقات ہو تو ...... ہم علمی نثر کا سہارا لیتے ہوئے اس طرح کہیں گے کہ .... آپ سے تو بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی - لیکن تخلیقی نثر میں یہی بات اس طرح کہی جایےگی.....
آہ آپ تو عیدکا چاند ہو گیے
یہاں بات تخلیقی انداز میں کہی گئی ہے -ملاقاتی کو عید کا چاند قرار دیا گیا - جس طرح عید کا چاند بڑے انتظار کے بعد نظر آتا ہے - اسی طرح ملاقاتی بھی بہت دنوں کے بعد نظر آیا ہے - اس میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ جس طرح عید کے چاند کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے - اسی طرح ملاقاتی کو دیکھ کر خوشی ہوئی ہے - گویا تخلیقی نثر میں الفاظ کا لغوی معنی کے علاوہ مجازی معنی بھی استعمال ہوتا ہے -
تخلیقی نثر کا مقصد اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے علاوہ لطف اندوزی بھی ہے - یعنی اس طرح کہی جایےکہ سننے والے کو خوشی حاصل ہو-اس کے لیے تشبیہ اور استعارے سے خاص طور پر مدد ملتی ہے - مثلاً اگر کسی سے یہ کہا جایےکہ "آپ مجھے بہت عزیز ہیں" تو یہ نثر کا سیدھا سیدھا استعمال ہے- یہاں ہر لفظ لغوی معنی میں استعمال کیا گیا ہے - لیکن اگر اس آدمی سےیہ کہا جایےکہ....."آپ تو میرے دل کی دھڑکن ہیں"..... تو یہ ایک تخلیقی جملہ ہے- کوئی کسی کی دل کی دھڑکن نہیں ہو سکتا - لیکن جس طرح دل کی دھڑکن انسان کی زندگی کے لیے ضروری ہے اسی طرح کہنے والے کی نظر میں اس کا دوست بھی اس کے لیے عزیز ہے - یہاں دوست کو دل کی دھڑکن سے تشبیہ دی گئی ہے - نثر کی جن اصناف میں تخلیقی نثر کا استعمال ہوتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ..
داستان ؛ ناول؛ افسانہ ؛ خط ؛ انشائیہ وغیرہ
ناول اور افسانہ میں ایک نئ دنیا کی تخلیق کی جاتی ہے - نئے کردار پیش کیے جاتے ہیں - فرضی واقعات کو حقیقی بنا کر پیش کیا جاتا ہے - کرداروں کے جزبات و احساسات کی ترجمانی کی جاتی ہے - یہ سب تخلیقی نثر کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں - ناول اور افسانہ نگار تشبیہ و استعارے سے بھی کام لیتا ہے اور اشارے اور کنایے سے بھی اپنے بات کہتا ہے - وہ کبھی مبہم انداز بیان اختیار کرتا ہے اور کبھی ایک بات کر دوسری بات مراد لیتا ہے - یہ باتیں اسی وقت ممکن ہے جب وہ تخلیقی انداز میں اپنی بات کہے-
اسی طرح داستان میں جگہ جگہ تشبیہ و استعارے نظر آتے ہیں - - خط میں بھی بہت سے موقعوں پر تخلیقی نثر کے نمونے مل جاتے ہیں - مثلاً غالب نے لطف بیان پیدا کرنے کے لیے جگہ جگہ تخلیقی نثر کا استعمال کیا ہے - ایک جگہ لکھتے ہیں ............"میرا حال مجھ سے کیا پوچھتے ہو - دو چار دن بعد پڑوسیوں سے پوچھ لینا "..........یہاں غالب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آخری وقت آ پہنچا ہے اور کس بھی وقت موت آ سکتی ہے - اپنی اس بات کو وہ تخلیقی انداز میں کہتے ہیں کہاب میرا حال مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں دو چار دن میں پڑوسیوں سے پوچھ لینا مطلب یہ کہ پڑوسیوں سے موت کی اطلاع مل جایےگی-
.................................
.........................................................
..................................
تخلیقی نثر کا مقصد اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے علاوہ لطف اندوزی بھی ہے - یعنی اس طرح کہی جایےکہ سننے والے کو خوشی حاصل ہو-اس کے لیے تشبیہ اور استعارے سے خاص طور پر مدد ملتی ہے - مثلاً اگر کسی سے یہ کہا جایےکہ "آپ مجھے بہت عزیز ہیں" تو یہ نثر کا سیدھا سیدھا استعمال ہے- یہاں ہر لفظ لغوی معنی میں استعمال کیا گیا ہے - لیکن اگر اس آدمی سےیہ کہا جایےکہ....."آپ تو میرے دل کی دھڑکن ہیں"..... تو یہ ایک تخلیقی جملہ ہے- کوئی کسی کی دل کی دھڑکن نہیں ہو سکتا - لیکن جس طرح دل کی دھڑکن انسان کی زندگی کے لیے ضروری ہے اسی طرح کہنے والے کی نظر میں اس کا دوست بھی اس کے لیے عزیز ہے - یہاں دوست کو دل کی دھڑکن سے تشبیہ دی گئی ہے - نثر کی جن اصناف میں تخلیقی نثر کا استعمال ہوتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ..
داستان ؛ ناول؛ افسانہ ؛ خط ؛ انشائیہ وغیرہ
ناول اور افسانہ میں ایک نئ دنیا کی تخلیق کی جاتی ہے - نئے کردار پیش کیے جاتے ہیں - فرضی واقعات کو حقیقی بنا کر پیش کیا جاتا ہے - کرداروں کے جزبات و احساسات کی ترجمانی کی جاتی ہے - یہ سب تخلیقی نثر کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں - ناول اور افسانہ نگار تشبیہ و استعارے سے بھی کام لیتا ہے اور اشارے اور کنایے سے بھی اپنے بات کہتا ہے - وہ کبھی مبہم انداز بیان اختیار کرتا ہے اور کبھی ایک بات کر دوسری بات مراد لیتا ہے - یہ باتیں اسی وقت ممکن ہے جب وہ تخلیقی انداز میں اپنی بات کہے-
اسی طرح داستان میں جگہ جگہ تشبیہ و استعارے نظر آتے ہیں - - خط میں بھی بہت سے موقعوں پر تخلیقی نثر کے نمونے مل جاتے ہیں - مثلاً غالب نے لطف بیان پیدا کرنے کے لیے جگہ جگہ تخلیقی نثر کا استعمال کیا ہے - ایک جگہ لکھتے ہیں ............"میرا حال مجھ سے کیا پوچھتے ہو - دو چار دن بعد پڑوسیوں سے پوچھ لینا "..........یہاں غالب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آخری وقت آ پہنچا ہے اور کس بھی وقت موت آ سکتی ہے - اپنی اس بات کو وہ تخلیقی انداز میں کہتے ہیں کہاب میرا حال مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں دو چار دن میں پڑوسیوں سے پوچھ لینا مطلب یہ کہ پڑوسیوں سے موت کی اطلاع مل جایےگی-
.................................
.........................................................
..................................
Good informative
ReplyDeleteHii Farha....whatsap ain zara 03337397179
DeleteThanks
DeleteThanks for basic information. ❣️
ReplyDeleteThanks
Deleteتشکر اتنی اہم معلومات فراہم کرنے کے لئے
ReplyDelete❣️
This comment has been removed by the author.
Delete