ذوق کی قصیدہ نگاری
![]() |
شیخ محمد ابراہیم (1789۔1854) |
نام : شیخ محمد ابراہیم
تخلص : ذوق
والد : شیخ محمد رمضان
پیدائش : 1789 (دہلی)
وفات : 1854
قصائد : 27
ذوق کی قصیدہ نگاری
ذوق نے اپنی قصیدہ نگاری کی مشعل کو سودا کے چراغ سے روشن کیا ہے۔ ذوق جب انیس سال کے تھے اسی وقت سے وہ ایک مستند قصیدہ گو شمار کیے جاتے تھے ۔ چنانچہ اسی عمرمیں انھوں نے اکبر شاہ ثانی کی تعریف میں ایک قصیدہ کہا۔اس کا مطلع ہے ۔
جب کہ سرطان و اسد میر کا ٹھیرا مکن
اب و ایلولہ ہوئے نشو و نما ہے گلشن
اس قصیدے سے خوش ہو کر اکبر شاہ ثانی نے ذوق کو"خاقانی ہند" کا خطاب عطا فرمایا۔
ایک دفعہ ذوق نے بہادر شاہ ظفر کی شان میں ایک قصیدہ کہا جس کا مطلع ہے۔
سب کو میں اپنے سر بستر خواب راحت
نہ علم میں سرمست غرور و نخوت
اس قصیدے کے معاوضے میں بہادر شاہ ظفر نے ذوق کو گاؤں بخش دیا۔ غرض یہ کہ ذوق نے قصیدہ گوئی میں اپنی زندگی ہی میں ِِ"مقام حیات" حاصل کر لیا تھا ۔
ذوق کی قصیدہ نگاری کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں قصیدے کے جزئیات کا جائزہ لینا پڑے گا ۔
تشبیب
قصیدہ کا پہلا حصہ تشبیب کہلاتا ہے۔ عام طور سے ذوق کی تشبیب بہار یہ ہوتی ہے ۔ اور اس میں بے حد روانی اور ترنم پایا جاتا ہے ۔ ذوق نے ایک قصیدہ اس وقت کہا جب بہادرشاہ ظفر ولی عہد تھے۔ اپنی ولی عہدی کے دوران علیل ہو گیے ۔ وہ صحت یاب ہوئے تو اکبر شاہ ثانی نے جشن غسل منایا ۔ ذوق نے اس موقع پر قصیدہ کہا جس کی تشبیب بہارا یہ ہے ۔ ذوق فرماتے ہیں ۔
واہ واہ کیا معتدل ہے باغ عالم کی ہوا۔
مثل نبض صاحب صحت ہے موج صبا
گریز
تشیب کے بعد قصیدے میں گریز کی منزل آتی ہے۔ ذوق کے قصیدوں میں گریز فطری ہوتی ہے وہ نہات فنکارانہ انداز میں تشبیب کے بعد بین کا رخ موڑتے ہیں۔
ذوق نے ولی عہد کے جشن غسل صحت کےموقع پر قصیدہ کہا ہے۔ اس کی تشبیب میں دیکھایا ہے کہ باغ عالم کی ہوا بہت معتدل ہے ۔ چنانچہ ہر شے صحت مند نظر آتی ہے۔ اس کے بعد گریز کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
واقعی کسی طرح سے صحت نہ ایک عالم کو ہو
جبکہ ہو اس کی نوید غسل صحت جاں فزا
یہ گریز مختصر بھی ہے اور فطری بھی یہاں تشبیب اور گریز میں کوئی فاصلہ نہیں ہے ۔
مدح
قصیدے کا سب سے ضروری جز مدح سرائی ہے ۔ اور اس پر قصیدے کی بنیاد ہوتی ہے ۔ مدح میں ممدوح کے اوصاف کی تعریف کی جاتی ہے مثلاً سجاعت ، عدل، علم سخاوت وغیرہ۔
جہاں تک ذوق کا تعلق ہے وہ رسم مدح نبھاتے ہیں۔انھوں نے زیادہ تراکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر کی مدح کی ہے ۔ اسی میں ہی سارا زور قلم صرف کر دیا ہے ۔
ذوق نے بہادر شاہ ظفر کی صحت یابی کے وقت پر شکوہ قصیدہ کہا اور بادشاہ کی صحت یابی کا اثر کائنات پر دیکھا یا وہ فرماتے ہیں۔
عجب نہیں یہ ہوا ہے کہ مثل نبض صحیح
کرے اگر حرکت موج چشمہ تصویر
نہ برف کو تپ لرزہ ، نہ ابر کوہو زکام
نہ آب میں ہو رطوبت ، نہ خاک میں تبخیر
غرض یہ کہ بادشاہ کی صحت یابی اس قدر مبارک ہے کہسطح گیتی سے سارے
امراض ختم ہو گئے ہیں۔ اگر چہ ان اشعار میں مبالغہ ہے مگر بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے قصیدہ گو شعرا ایسی نسخہ استعمال کرتے ہیں ۔
دعا
قصیدے کا آخری حصہ دعائیہ ہوتا ہے اس میں ممدوح کوبلند اقبال اور درازی عمر کی دعا دی جاتی ہے ۔ ذوق کے دعاؤں میں نازک خیالی اور معنی آفرین نظر آتی ہے۔ ذوق بادشاہ کے غسل صحبت کے موقع پر ان کو یوں دعا دیتے ہیں۔
عطا کرے تجھے عالم میں قادر قیوم
بجاه ودولت و اقبال و عزت و توقیر
ذوق کی قصیدہ نگاری کے بارے میں کلیم الدین احمد لکھتے ہیں :-
"ذوق نے بھی قصیدے نہایت اہتمام و کاوش سے لکھے ہیں ہر قصیدے کا رنگ جدا ہے، ہر قصیدے میں ایک نئی بات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے"
فراق گورکھپوری لکھتے ہیں :-
" ذوق کے کلام میں اردو نے آپ کو پایا ، روایتی بالوں کو اتنی سنوری ہوئی اورمکمل شکل میں پیش کرنا دینا ایک ایسا کارنامہ ہے جسے آسانی کے ساتھ نبھایا نہیں جا سکتا":
بیسٹ
ReplyDelete