دکن میں اردو زبان وادب کا ارتقاء

اردو کا آغاز اگرچہ شمالی ہند میں ہوا لیکن اس نے اپنےارتقاء کی منزلیں شمال کے علاہ دکن میں بھی طے کیں۔

شمالی ہند میں تقریبا ایک سو سال تک فروغ پانے کے بیداردو دکن کا رک کرتی ہے۔ جہاں اسے دکنی کہا جاتا ہے۔ بقول پروفیسر مسعد حسین خان اس زبان کا ' دکنی ' نام بہت زیادہ قدیم نہیں۔ ان کے خیال میں عہد بہمنی کے کسی مصنف نے اپنی زبان کو دکنی نام سے نہیں پکارہہے۔ اس ہندی، ہندوی اور گجری نام زیادہ قدیم ہیں۔ قطب شاہی اور عادل شاہی ریاستوں کے قیام کے بعد ہی اس کا نام "دکنی" پڑا ہے۔"

بقول پروفیسر عبدالقادر سروری " دکنی قدیم اردو کا وہ روپ ہےجس کی ادبی نشوونما ابتدائی زمانے میں دکن اور گجرات میں چودھویں صدی عیسوی کی نصف آخر سے سترھویں صدی کے اواخر کے دوران میں ہوئی۔" یہ زبان بھی جدید ہند آریائی کی ایک شاخ ہے۔اور اس اک آغاز بھی جدید ہند آریائی کے ساتھ ساتھ ہوالیکن نشونما کے اعتبار سے یہ اودھی کی معاصر ہے۔ دکن کا سارا سرمائے الفاط ہند آریائی ماخذوں پر مبنی ہےاور قواعد کا دھانچہ بھی ہند آریائی بولیوں سے مطابقت رکھتا ہے۔

              دکن میں اردو کا عمل دخل دکن پر مسلمانوں حملوں سے شروع ہوتا ہے۔سب سے پہلے دہلی کے سلطان علاءالدین خلجی کا فوجی سپہ سالار ملک کافور 1294 میں دیوگری پر چڑھائی کرتا ہے۔(دیوگری مہاراشٹر واقع ہے۔ دکن کی سیاست میں دیوگری کو ایک اہم مقام حاصل تھا۔ دکن میں پیش قدمی کے لئے مزاحمت تصور کیا جاتا تھا۔ چنانچہ دیوگری پر تسلط قائم کرکے اس مزاحمت کو حتم کرنا مقصود تھا۔ تاکہ آئندہ دکن پر حملے کے لئے راہیں ہموار ہو جائیں۔)

              دکن میں خود مختار سلطنتوں نے اردو کی ترقی اور اس کی ترویج و اشاعت میں جی کھول کر حصہ لیا۔ 1347 میں بہمنی سلطنت  کے قیام کے بعد سے ہی دکن میں اردو میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اس کے بعد کی عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتیں تو اردو زبان و ادب  کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ قطب شاہی بادشاہوں نے نہ صرف یہ کہ اردو کو اپنے دربار میں جگہ دے کر اس کی سرپرستی فرمائی بلکہ اسے اپنے شعری و ادبی اظہار کا بھی ذریعہ بنایا۔اردو کی ترویج و اشاعت اور فروغ میں سوفیائے کی کوشش بھی لائق ستائش ہیں۔ دکنی اردو کے بعض ابتدائی نمونے انھیں صوفیاکے برکت قلم دین ہے۔

               دکن میں اردو کے پھلنے پھولنے اور پروان چڑھنے کے کئی اسباب ہیں مثلا دکن کے فرماں رواؤں نے فارسی کو جوشمالی ہند کی سیاسی اور تہذیبی زندگی کا ایک اہم جزو تھی زیادہ منھ نہیں لگایا۔ اہل دکن کی فارسی سے یہ  بے اعتنائی اردو کے لئے فال نیک ثابت ہوئی۔اس کے علاوہ دکنی فرمان رواؤں کے ملکی جذبے علاقائی تفاخر اور مقامی روایت کے پاس نے بھی اردو کے فروغ میں کافی اہم کردار ادا کیا۔ اپنے انھیں رجحانات کو تقویت پہچانے کے لئے دکن کے بادشاہوں نے دل کھول کر اردو کی سرپرستی کی نیز  دکن کے کثیر لسانی ماحول میں اسے رابطے کی زبان کے طور پر  فروغ دیا۔

           دکن مین اردو کے فروغ کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ شمالی ہند سے ترک وطن کرکے  دکن پہنچنے والی تمام خلقت نے اردو ہی کو اپنی مادری زبان مانا اور اس مقامی رنگ و آہنگ پیدا کیا۔ چونکہ یہ زبان اکثریت کی زبان تھی اور عوام میں بےحد مقبول تھی اس لئے اس لئے اس ترقی کے امکانات کافی روشن ہو  گئے۔ صوفیائے کرام کے درس اخلاق اور تبلیغ دین کی وجہ سے بھی دکن میں اردو کے فروغ مین کافی مدد ملی۔ پروفیسر عبدالقادر سروری لکھتےہیں۔ 

          "دکن میں

            

Comments

Popular posts from this blog

مضمون نگاری کی تعریف اور اس کے اصول

مضمون کی قسمیں

تخلیقی نثر