Posts

Showing posts from 2023

دکن میں اردو زبان وادب کا ارتقاء

اردو کا آغاز اگرچہ شمالی ہند میں ہوا لیکن اس نے اپنےارتقاء کی منزلیں شمال کے علاہ دکن میں بھی طے کیں۔ شمالی ہند میں تقریبا ایک سو سال تک فروغ پانے کے بیداردو دکن کا رک کرتی ہے۔ جہاں اسے دکنی کہا جاتا ہے۔ بقول پروفیسر مسعد حسین خان اس زبان کا ' دکنی ' نام بہت زیادہ قدیم نہیں۔ ان کے خیال میں عہد بہمنی کے کسی مصنف نے اپنی زبان کو دکنی نام سے نہیں پکارہہے۔ اس ہندی، ہندوی اور گجری نام زیادہ قدیم ہیں۔ قطب شاہی اور عادل شاہی ریاستوں کے قیام کے بعد ہی اس کا نام "دکنی" پڑا ہے۔" بقول پروفیسر عبدالقادر سروری " دکنی قدیم اردو کا وہ روپ ہےجس کی ادبی نشوونما ابتدائی زمانے میں دکن اور گجرات میں چودھویں صدی عیسوی کی نصف آخر سے سترھویں صدی کے اواخر کے دوران میں ہوئی۔" یہ زبان بھی جدید ہند آریائی کی ایک شاخ ہے۔اور اس اک آغاز بھی جدید ہند آریائی کے ساتھ ساتھ ہوالیکن نشونما کے اعتبار سے یہ اودھی کی معاصر ہے۔ دکن کا سارا سرمائے الفاط ہند آریائی ماخذوں پر مبنی ہےاور قواعد کا دھانچہ بھی ہند آریائی بولیوں سے مطابقت رکھتا ہے۔               دکن میں اردو کا عمل دخل دکن پر مسلمان...

افسانہ

  افسانہ بیسویں صدی کے آغازکی پیداوار ہے- تیزی سے بدلتے ہوئےزمانےکا ساتھ دینے والوں کے لیے مختصرافسانہ خاص کشش رکھتا ہے۔ افسانہ اس کہانی کوکہتے ہیں جس میں زندگی کی سچائیوں کا بیان ہوتا ہے۔ نقادوں نے افسانے کی مکتلف تعریفیں بیان کی ہیں۔ ایک نقاد نے کہا ہےکہ افسانہ ایسی نثری تخلیق ہے جو ایک ہی نشست میں پڑھی جا سکے 

انشائیہ

         انگریزی میں انشائیہ اور مضمون کے لیے Essay کی اصطلاح رائج ہے۔ انشائیہ ادیب کی ذہنی رواور ادبی اسلوب کا آئنہ دار ہوتا ہے۔انشائیہ نگارزندگی کی عام یا خاص بات یا کیفیت کو اپنی افتاد طبع،علمیت اور شگفتہ نگاری سے پر لتف انداز میں بیان کر دیتا ہے۔ابتدا میں تمثیلی انشائیے بھی لکھے گئے۔انھیں رمزیے (Allegory) کہا جاتا ہے۔ان کی بہترین مثال محمد حسین آزاد کی کتاب 'نیرنگ خیال' ہے۔سر سید، شبلی، حالی اور خواجہ حسن نظامی سے لی کرنیاز فتح پوری، سید عابد حسین، خواجہ غلام السیدین، محمد مجیب، رشید احمد صدیقی اور ان کے بعد کے لکھنے والوں کی بعض تحریریں انشائیہ بھی کہی جا سکتی ہیں اور مضمون بھی۔ کنھیا لال کپور، مشتاق احمد یوسفی، یوسف ناظم، وزیر آغا اور مجتبی حسین وغیرہ ممتاز انشائیہ نگار ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خبر اور مضمون میں فرق

  خبر اور مضمون کا فرق واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان دونوں کی تعریف پیش نظر رکھی جائے۔ مضمون کسے کہتے ہیں؟ - اسی طرح خر کسے کہتے ہیں ؟ اور اس کے شراط کیا ہیں۔ اگر یہ باتیں پیش نظر ہو تو دونوں کا فرق واضح ہو جاؤ گا۔ مضمون کے بارے میں تو ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ مضمون کسی موضوع پر مربوط اور مسلسل اظہار خیال کا نام ہے ۔ یہ موضوع ادبی بھی ہو سکتا واقعانی بھی اور تخلیقی بھی مضمون نگار اپنی دلچسپی اور پسند کے کسی بھی موضوع پر تسلسل کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مضمون کی ایک قابل لحاظ طوالت بھی ہوتی ہے ۔ فقط دس یا پندرہ سطروں پر مشتمل کسی تحریر کو مضمون کہنا مشکل ہے ۔ مضمون 3 صفحہ سے لیکر 20 اور 25 صفحے تک طویل ہو سکتا ہے ۔ بشرط یہ ہے کہ تحریر باہم مربوط ہواور ایک موضوع  سے متعلق ہو ۔ یہ موضوع خیالی بھی ہو سکتا ہے سما جی اور  سیاسی بھی ہو سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ادبی بھی ہو سکتا ہے۔   جب ہم خیر کی تعریف اور اس کی شرءط کا تجزیہ کرتے ہیں تو خیر اور مضمون کا فرق خود بخود واضح ہونے لگتا ہے۔ عام طور پر خبر کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ  خبر وہ ہے جس میں مندرجہ ...

Urdu Adab--Test---(1)

Loading…

تنقیدی مضمون

Image
تنقیدی مضمون   وہ مضمون جس میں کسی ادبی صنف کسی  ادبی تخلیق یا کسی ادبی نظریے کے مختلف پہلؤوں پر رائے زنی کی جائے تنقیدی مضمون کہلاتاہے۔ ادب میں تنقید کا مفہوم بڑا وسیع ہے۔ اس کے تحت ادبی تخلیقات کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ ہرفن کے کچھ اصول ہوتے ہیں ، جن کی روشنی میں فن اور ادب کی جانچ کی جاتی ہے۔ تنقید نگار کے لیے ذاتی پسند و نا پسند سے زیادہ اہم وہ معیار ہوتے ہیں جن کی قدر و قیمت ہر زمانے میں برقرار رہتی ہے۔ ہم جب کسی ادبی تخلیق کو پڑھتے ہیں تو وہ ہمیں متاثر کرتی ہے۔ یہ تاثر اچھا بھی ہوسکتاہے اور بُرا بھی۔ یہ تاثر وقتی بھی ہوسکتا ہے اور مستقل بھی ۔ چوں کہ ہم میں زیادہ تر لوگ ادب کو وقت گزاری کی چیز سمجھتے ہیں اور اس سے صرف تفریح حاصل کرنا چاہتے ہیں اس لیے ہم بالعموم کسی تخلیق کو بار بار نہیں پڑھتے ۔ جب کہ تنقید نگار ادبی تخلیق کا ایک سے زیادہ بار مطالعہ کرتا ہے اور ہر بار وہ ایک نئے تاثر سے دو چار ہوتا ہے۔ بہت سے تاثرات سے گزرنے کے بعد وہ اُن کی چھان پھٹک کرتا ہے۔ اس طرح اُس تخلیق کی زیادہ سے زیادہ خوبیاں اور خامیاں اُس پر واضح ہوتی جاتی ہیں۔ اس عمل سے گزرن...

مغربی ہندی اور اس کی بولیاں

لسانی اعتبار سے مغربی ہندی کا تعلق براہ راست شور سینی اپ بھر نش سے ہے جو اس عہد کی بولیوں میں واحد اور ممتاز ادبی حیثیت کی مالک تھی، جس نے سب سے زیادہ سنسکرت کے اثر کو قبول کیا تھا۔ ہر عہد میں اس علاقہ کی زبان کا مرکز متھرا رہا ہے ، جو قدیم ہندی تمدن کا اہم مرکز تھا۔ مغربی ہندی دہلی اور اس کے گرد و نواح میں بولی جانے والی پانچ بولیوں کا نام بھی ہے۔ اردو کا سلسلہ بھی انہیں مغربی ہندی بولیوں سے ملتا ہے۔ مغربی ہندی کے سلسلے میں مندرجہ ذیل پانچ بولیاں آتی ہیں۔   برج بھاشا⬅️ بندیلی ⬅️قنوجی ⬅️کھڑی بولی ⬅️ ہریانی   یہ بولیاں اپنے ارتقاء کےدوران دو نمایاں شکلیں اختیار کر لیتی ہیں جن میں ایک گروہ أو “ اور دوسرا گروپ " آ ” والا کہلاتا ہے۔ "او" کو ترجیح دینے والی بولیوں میں۔ برج بھاشا، قنوجی اوربندیلی آتی ہیں۔ . "آ " کو ترجیح دینے والی بولیاں کھڑی بولی اورہریانوی ہیں۔   ایک اہم بات         گریرسن نے مدھیہ پردیش کی زبان کو مغربی ہندی کا نام دیا ہے جس نے سب سے پہلے مشرقی اور مغربی ہندی میں فرق کیا ہے۔ مغربی ہندی مدھیہ دیش کی زبان ہونے کی وجہ سے ہند آریائی زبان کی ...

Online Education/ آن لائن تعلیم موجودہ دور میں اساتذہ کے لیے مواقع اور چیلنج

Image
 نظام تعلیم یاکسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک اچھا استاد اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت اس طرح کرتا ہے جیسے ایک مالی باغ میں پودوں کی کرتا ہے۔ اس لیے استاد کو روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے۔ موجودہ زمانہ تعلیم کا زمانہ ہے۔ دنیا میں آج وہی قوم کامیاب ہے جس نے تعلیم کے میدان میں اپنے آپ کو آگے رکھا۔ موجودہ دور میں معلومات (information) تو بہت ہے لیکن وہ صحیح ہے یا غلط اس کا پتہ نہیں چل پاتا یہاں اساتذہ ہمیں صحیح راہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔م موجودہ دور میں تعلیم حاصل کرنے اور تعلیم دینے کے مختلف    informal اور formal ذرائع ہیں جیسے  تعلیم کلاس روم میں بھی حاصل کی جاسکتی ہے اور آن لائن  بھی۔ لیکن موجودہ دور میں آن لائن تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ کورونا کی وجہ سے جہاں دنیا کا نظام بدل گیا ہے وہیں اس کی وجہ سے تعلیم اور نظام تعلیم میں بھی نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ سارے لوگ اپنے اپنے گھروں میں قید ہو گئے بچے اسکول اور کالجوں سے محروم ہو گئے۔ اسے وقت میں اساتذہ کے لیے ایک چیلنج تھا کہ درس و تدریس کے عمل کو کیسے جاری رک...